- اسلامی تعلیمات

Breaking

Saturday, July 3, 2021

 
قربانی کے فضائل و مسائل

اُضحِیَ٘ہ شریعت میں اس (قربانی کے ) جانور کو کہا جاتا ہے جو مخصوص دنوں(یعنی ایامِ قربانی) میں اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے۔


قربانی کی فضیلت قرآن کی روشنی میں


﴿١﴾  وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌ ٭ۖ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَکُلُوْا مِنْہَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴿٣٦﴾لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ  لُحُوْمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ ؕ وَ بَشِّرِ  الْمُحْسِنِیْنَ ﴿سورة الحج: ٣٦-٣٧﴾


ترجمہ:اور قربانی کے اونٹ اور  گائے کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر (یعنی اللہ کی نشانیوں کو ظاہر کرنے والی یاد گاروں) میں شامل کردیا ہے،اس میں تمہاری بھلائی ہے ؛چنانچہ کھڑاکرکے تم ان پر اللہ کا نام لو ، پھر جب وہ کروٹ کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤاور نہ مانگنے والوں کو بھی کھلاؤاور مانگنے والوں کو بھی ، اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے بس میں کردیا ہے؛ تاکہ تم احسان مانو(٣٦)اور اللہ کو ان کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا؛لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔اسی طرح اللہ نے ان چوپایوں کو تمہارے بس میں کردیا ہے ؛ تاکہ اللہ نے تم کو جو توفیق عطاکی ہے ،اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجئے(آسان تفسیر قرآن مؤلف خالد سیف اللہ رحمانی)


دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿٢﴾  قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴿سورۃالانعام:162﴾

ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالی ہی  کے لئے ہے جو سارے جہاں کا پروردگار ہے۔


ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿٣﴾   فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴿سورۃالکوثر:2﴾

سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر۔


الله تعالیٰ سورہ حج آیت نمبر ٣٤ میں فرماتا ہے

﴿٤﴾وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ  وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ  بَشِّرِ  الۡمُخۡبِتِیۡنَ ﴿سورۃالحج:٣٥﴾

ترجمہ: ہر امت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کردی ہے،تاکہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے چوپایوں پر (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا کریں ، لہٰذا تم لوگوں کا خدا ایک ہی خدا ہے،اسی کی فرمانبرداری کرواور (اے رسول، احکامِ خداوندی کے سامنے)گردن جھکا دینے والوں کوخوش خبری سنا دیجئے۔


قربانی کی فضیلت احادیث کی روشنی میں


قربانی اتنی اہم عبادت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری حیات مبارکہ میں اس کا اہتمام فرمایا۔


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں

’’اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّیْ‘‘ (جامع الترمذی:ج 1، ص:409: ابواب الاضاحی)


ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔


قربانی کی اہمیت


 قربانی کی اہمیت کا پتا اس بات سے چلتا ہے کہ سردار دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس عظیم الشان عبادت کی  ادائیگی کے حکم کے ساتھ ساتھ اس کی فضیلت اور اجر و ثواب واضح انداز میں بیان فرمایا : جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے اس کا  پتا چلتا ہے۔


(١)  عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللّٰہ من اہراق الدم وانہ اتی یوم القیامة بقرونہا واشعارہا وظلافہا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بہا نفسا(مشکوٰۃالمصابیح)


ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دنوں میں خون بہا نے (جانوروں کو ذبح کرنے)سے زیادہ پسندیدہ عمل کو ئی نہیں، اور وہ (جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں،بالوں،اور کھروں کے ساتھ آئے گا،اور (قربانی کے جانور کا )خون زمین پر گر نے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ(قبول ہو) جاتا ہے،پس اس (قربانی) کو خوش دلی سے کیا کرو۔


(٢) عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة(مشکوٰۃالمصابیح)


ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ہمارے لئے کیا (اجر و ثواب)ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی،پھر صحابہ نے پوچھا کہ (اگر ایسے اون والےجانور جیسے دنبہ وغیرہ کے) اون میں کیا ثواب ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے


(٣)عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم افضل من دم یہراق إلا أن یکون رحماً توصل


ترجمہ: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی  کے دن ارشاد فرمایا کہ ان دونوں میں قربانی سے زیادہ انسانوں کا کوئی عمل پسندیدہ  نہیں سوائے رشتہ داروں کے ساتھ  حسن سلوک کے


(٤)عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا فاطمة! قومی إلی أضحیتک فاشہدیہا، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا أن یغفرلک ما سلف من ذنوبک․ قالت: یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہلَ البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا وللمسلمین(رواه البزار وفيه عطية بن قيس وفيه كلام كثير وقد وثق‏)


ترجمہ: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فاطمہ اپنے قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ر ہو کیونکہ اس (قربانی کے جانور کے خون) کا پہلا قطرہ زمین پر گر نے سے پہلے تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں،آپ رضی اللہ عنہا نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (اجر و ثواب) ہم اہل بیت کے لئے خاص ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلکہ یہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔


(٥) ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ۔‘‘(سنن الدارقطنی ص774باب الذبا ئح ،سنن الکبریٰ للبیہقی ج9 ص 261)


تر جمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:کہ اس خرچ سے بہتر کوئی خرچ ہو ہی نہیں سکتا جو عید الاضحی کے دن قربانی پر کیا جائے۔


 قربانی نہ کر نے والے پر وعید


 اگر کوئی شخص صاحب نصاب ہو اور قربانی کر سکتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا۔


(٦)عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجد سعة لان یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا(رواہ احمد،و ابن ماجہ ،والدارقطنی ،والبیہقی،والحاکم،وصحھہ ووافقہ الذہبی ، بدائع الصنائع جلد 4 صفحہ 194)


 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ نہ آئے


قربانی کے چند مسائل


قربانی کن لوگوں پر واجب ہے

 اگر کوئی آدمی عقلمند ، بالغ ،آزاد، مقیم، مسلمان اور   

 مالدار ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔

 

قربانی کا نصاب

جو صدقۃ الفطر کا نصاب ہے وہی قربانی کا بھی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس قرض کی ادائیگی اورضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے بعد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی قیمت کی چیزیں ہوں چاہے وہ چیزیں مالِ تجارت ہو یا نہ ہو،چاہے اس پر سال گذرا ہو یا نہ گذرا ہو تو ایسے شخص پر قربانی کرنا واجب ہے.

 قربانی کا وقت 

  دسویں ذی الحجہ کے طلوع فجر  سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے،مگر شہر میں رہنے والے عید الاضحی کی نماز کے بعد ہی قربانی کر سکتے ہیں اس پہلے نہیں۔

  

  قربانی کرنے کا طریقہ  

  قربانی کے لئے زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف دل میں نیت کرنا کا فی ہے؛لہٰذا قربانی کے جانور کو قبلہ رخ لٹا کر یہ دعاء پڑھے.  

  إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّماَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفَاً وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ . إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ المُسْلِمِينَ ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ۔  

  اسکے بعد بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کرے اور پھر  یہ پڑھے۔

  ’أللّٰہم تقبّلہ منّی کما تقبّلت من حبیبک محمد وخلیلک إبراہیم علیہما الصلوٰۃ والسلام

  

  اگر کسی دوسرے کی جانب سے قربانی کررہا ہے تو الٰ٘ہم تقبلہ منی کی جگہ اللٰ٘ہم تقبلہ من" فلان "(یعنی" من" کے بعد جس کی طرف سے قربانی کررہا ہے اس کا نام لے)  

  کون سے جانور کی قربانی جائز ہے۔

  بکرا،بکری،بھیڑ،دنبہ،گائے،بیل،بھینس،بھینسا،اونٹ،اونٹنی، صرف ان ہی جانوروں(کے دونوں جنس یعنی نرو مادہ) کی قربانی جائز ہے،اس کے علاوہ کسی دوسرے جانور کی قربانی جائز نہیں۔

قربانی کے جانور کی عمر

بکرا، بکری،بھیڑ،دنبہ،ایک سال کا اور گائے،بیل،بھینس،بھینسا،دو سال کا جبکہ اونٹ اور اونٹنی پانچ سال کاہونا ضروری ہے اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں؛البتہ اگر بھیڑاور دنبہ ایک سال کا نہ ہو مگر اتنا تندرست اور صحتمند ہو کہ سال بھرکا معلوم ہوتاہو  تو اس کی قربانی جائز ہے(در مختار)

کون سے  جانور میں کتنے حصے

بکری ، بکرا ، بھیڑ اور دنبہ صرف ایک شخص کی طرف سے کافی ہوگا جبکہ گائے، بیل،بھینس، بھینسا،اونٹ،اور اونٹنی میں سات آدمی تک شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ارشاد فرمایا۔

عن جابر بن عبد الله، قال: «نَحَرْنَا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عَامَ الحُدَيْبِيَة البَدَنَةَ عن سَبْعَة، والبَقَرَةَ عن سَبْعَة(روہ البخاری ومسلم)»

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ صلحِ حدیبیہ کے سال ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی اونٹ سات (آدمی کی طرف سے) اور گائے سات (آدمی کی طرف سے)


قربانی کا گوشت


قربانی کے گوشت کو تین حصہ میں تقسیم کرکے ایک حصہ غریبوں مسکینوں میں ،دوسرا حصہ رشتہ داروں میں اور تیسرا حصہ اپنے لئے رکھے،اگر افرادِ خانہ زیادہ ہوں تو پورا گوشت بھی رکھ سکتا ہے۔


مسئلہ: اگر ایک جانور میں ایک سے زائد لوگ حصہ دار ہوں  تو گوشت کو وزن کر کے تمام حصے داروں میں برابر برابر تقسیم کیا جائے۔


قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا کیسا ہے؟


 مسئلہ: قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دیاجا سکتا ہے 

 مسئلہ: قربانی کے گوشت کو نہ بیچ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اجرت میں دے سکتے ہیں۔


 عیب دار جانور جس کی قربانی جائز نہیں

 

 اصولی بات

 ہر وہ عیب جو جانور کی منفعت اور اس کی خوبصورتی کو پورے طور پر ختم کردے چاہے پیدائشی ہو یا قربانی سے کچھ پہلے پیدا ہوئے ہوں تو ایسے غیر معمولی عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں؛جیسا مندرجہ ذیل مسائل کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔

   مسئلہ: اگر قربانی کا جانوراندھا ہویا کانا ہو یا کسی ایک آنکھ کی ایک تہائی یا اس سے زائد روشنی چلی گئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

   مسئلہ: جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں،یا جانور کا تہائی سے زیادہ کان کٹا ہوا ہو،تواس کی قربانی دُرست نہیں۔

  مسئلہ: جانور اگر لنگڑا ہو،یاایک پیر آدھے سے زیادہ کٹا ہو ، یا چار پیر والا جانور صرف تین پیر سے چل پاتا ہو اور چوتھا پیر زمین پر نہ رکھ پاتا ہو یا رکھتا ہو مگر اس پیر سے چل نہ پاتا ہوتو ایسے جانور کی قربانی بھی جائز نہیں۔

  مسئلہ: کسی جانور کادُم یا اس کا اکثر حصہ کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔  

مسئلہ: جانور ایسا بیمار اور لاغر(جس کے ہڈیوں میں مغز نہ) ہو اور خودسےاپنے پیروں پر  مذبح تک نہ جا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔

 مسئلہ:   گائے اور بھینس کے دونوں تھن یا بکری کا ایک تھن خشک ہو چکا ہو یا پیدائشی طور پر نہ ہو تو ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں۔

 مسئلہ:   اگر کسی جانور کے تمام دانت گر گئے ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔

 مسئلہ:  اگر کسی جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ چکے ہواس طور پر کہ دماغ اس سے متأثر ہوا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ۔

 مسئلہ: ایسا جانور جس کی ناک کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

 مسئلہ: جانور میں ایسا پاگل پن ہو جس کی وجہ سے وہ چارہ نہ کھا پاتا ہو اس کی قربانی درست نہیں۔

 مسئلہ:  جانور میں ایسا خارش لگ گیا ہو کہ جس کی وجہ سے وہ بہت ہی لاغر ہو گیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں۔

 مسئلہ:  جو جانور خنثی ہو، یعنی: اس میں نر ومادہ دونوں کی جنسی علامات ہوں یا دونوں میں سے کسی کی کوئی جنسی علامت نہ ہو اور پیشاب کے لیے صرف سوراخ ہو تو اس کی قربانی یا عقیقہ شرعاً درست نہیں(فتاویٰ دار العلوم دیوبند)


وہ معمولی عیوب والا جانور جس کی قربانی جائز ہے


مسئلہ: اگر کسی جانور کا کچھ دانت گر گیا ہو لیکن اکثر باقی ہو تو قربانی جائز ہے،

مسئلہ:  اگر  پیدائشی سینگ ہی نہ ہو یا ، سینگ معمولی ٹوٹے ہوں، جس کا اثر دماغ تک نہ پہنچتا ہو جیسے جائز ہے۔

مسئلہ:  اسی طرح گائے، بکری وغیرہ کے اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

مسئلہ:  اگر کسی جانور کے کان کا  تیسرے سے کم حصہ کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

مسئلہ : اگر جانور کی دم تہائی سے کم کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز ہے۔

مسئلہ:  اگر کسی جانور کے آنکھ کی  روشنی تہائی سے کم جاتی رہے تو قربانی جائز ہے ۔


نوٹ: ان تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے جن کی کتابوں، مقالوں،فتاوی و مضامین،یا ان کے متون و تراجم سے ہم نے استفادہ کیا ہے، جزاكم الله احسن الجزاء۔

ناقل الحروف

حسین احمد قاسمی



 

No comments:

Post a Comment

thank for comment